Tuesday, October 15, 2013

قصہ روزنامہ "دنیا" کے لیئے کالم لکھنے کا

عمار چودھری صاحب،
گزشتہ 23 مئی، بعد دوپہر، آُپ نے مجھے فون کیا۔
"میں روزنامہ "دنیا"سے عمار چودھری بول رہا ہوں۔ ہمیں آپ کا ایک مضمون ملا ہے۔ ہم اسے چھاپنا چاہتے ہیں۔ آپ اپنی تصویر اور ای میل پتہ پھیج دیں۔"
"میرا کون سا مضمون ہے؟"
"سیاست کے بارے میں ہے۔"
"اسے رہنے دیں۔ میں آپ کو بجلی سستی کرنے اور لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے بارے میں مضمون بھیج دیتا ہوں۔ اسے شائع کرنا بہتر ہوگا۔"
"یہ ٹھیک ہے۔ ویسے بھی بجلی آج کا ہاٹ سبجیکٹ ہے۔"
مضمون اگلے ہی دن چھپ گیا۔ طے ہوا کہ میں باقاعدگی سے ہفتہ میں دوکالم لکھا کروں گا۔ سوچ بچار کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ گھسے پٹے موضوعات پر لفظوں کی جگالی کرنے کی بجائے بہتر ہوگا کہ میں ہر دفعہ کسی ایک مسئلہ کو لوں اور اپنی سمجھ کے مطابق اس کا حل تجویز کروں۔ مسئلہ بھی ایسا ہو جس کی طرف توجہ نہ دی گئی ہو لیکن اس کا عام لوگوں پر اثر پڑتا ہو۔ اس طرح پڑھنے والوں کی سوچ کو مہمیز ملے گی۔ اگر مسئلہ فوری طور پر حل نہ بھی ہو، تب بھی تجویز تو گردش میں رہے گی اور کبھی نہ کبھی حل کرنے والوں کے ایوانوں تک پہنچ جائے گی۔
ادھر میں کالم بھیجتا، اگلے یا اس سے اگلے روز چھپ جاتا۔ چونکہ میں اخبار کی خبروں کو سامنے رکھ کر نہ لکھتا، میرے لیئے آسان تھا کہ پیشگی طور پر کالم تیار کر لیا کروں۔ اس وقت بھی سات کالم فائینل اور 28 سیمی فائینل شکل میں ہیں۔ 140 کے قریب ابتدائی شکل میں ہیں۔ ان کے علاوہ نت نئے موضوعات آتے رہتے۔ یوں میں کئی سالوں تک کالم چلا سکتا تھا۔
بہت سے لوگ اپنے کالم میں صاحبان اقتدار کی خوشامد یا انھیں بلیک میل کر کے دنیاوی فائدے حاصل کرتے ہیں جب کہ میں نے، جیسا کہ میرے کالموں سے ظاہر ہے، ایسی کوئی کوشش کبھی نہ کی۔
بیشتر لوگ کالم لکھتے ہیں نام بنانے کے لیئے جب کہ مجھے شہرت کی خاہش کبھی نہیں رہی۔ میں حضرت بایزید بسطامی کے ملامتیہ مسلک کا پیروکار ہوں، جس میں انسان ہر وقت کوشاں رہتا ہے کہ تکبر اور انا کی تسکین سے بچے۔ کالم نویس اگر مشہور ہو بھی جائے تو بھی صرف کالم کا پیٹ بھرتے رہنے سے نہ اسے کچھ تسکین ہوتی ہے اور نہ پڑھنے والے کو۔ میرے ایک دوست کہا کرتے ہیں، "میں منو بھائی کا کالم روز پڑھتا ہوں، اس امید پر کہ شائد آج کوئی کام کی بات لکھی ہو۔"
شروع سے ہی مسائل کا سامنا ہو گیا۔ پتہ چلا کہ اخبار کے مدیران ادارت کے مسلمہ اصولوں کی بھی پروا نہیں کرتے۔ (نازک مزاج شاہاں تاب سخن ندارد۔) جہاں چاہا عبارت کاٹ دی یا بدل دی، جہاں چاہا عنوان کچھ کا کچھ کر دیا۔ تحریر کو کوئی تقدس نہ ملتا۔ پڑھنے والا تو یہی سمجھتا کہ لکھنےوالے ہی کی مت ماری گئی۔ اسے کیا خبر کہ تکبر اور انا کی تسکین کے لیئے قینچی کون چلاتا ہے۔ (اس کے برعکس کالم نویسوں کی غلطیوں کی تصحیح نہیں کی جاتی۔ محنت جو درکار ہوتی ہے۔)
میرے خط "ٹائیم،" "نیوزویک،" "بزنس ویک،" وغیرہ میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ جو کچھ چھپتا اس کا ایک ایک لفظ میرا ہوتا۔ کوئی میری انگریزی یا گرامر تبدیل نہ کرتا۔ ان جیسے عظیم اداروں میں من مانی نہیں چلتی۔ مشہور امریکہ ہفت روزہ، "ٹائیم،" کے بانی ایڈیٹر، ہنری لوس، 61 سال تک چیف ایڈیٹر رہے۔ اس عرصہ میں ان کا لکھا ہوا ایک جملہ بھی رسالہ مِن شائع نہ ہوا۔ ہمارے ہاں کئئِ ایڈیٹر اپنے اصل کام سے کہیں زیادہ وقت اور ترجیح کالم لکھ٘نے اور ٹیلی ویژن پر آنے کو دیتے ہے۔ خود نمائی کا جنون سوچنے اور سیکھنے کے لیئے کہاں وقت رہنے دیتا ہے؟
میں تحریر میں پیرہ کو اتنا ہی اہم سمجھتا ہوں، جتنا تقریر میں سانس لینے کو۔ ہر نیا نکتہ نئے پیرہ میں لکھتا ہوں، ورنہ وہی ہو سکتا ہے جو ایک سانس میں پانی کا گلاس پینے سے ہوتا ہے۔ دوسری طرف آپ کو صفحہ پر سطریں پوری کرنے کے لیئے پیرے مٹانے پڑتے۔ ایک دفعہ تو آپ نے پورا کالم ایک پیرہ میں کر دیا! اس کا حل آپ نے یہ نکالا کہ میں کالم کو 1200 کی بجائے 1000 کے لگ بھگ الفاظ تک محدود کر دیا کروں۔ اس طرح میرے پیرے برقرار رہیں گے۔
ایک اور مسئلہ املا کا پیدا ہوا۔ میں سمجھتا ہوں کہ زندہ زبان میں املا کی بہتری ہوتی رہنی چاہیئے۔ انگریزی میں شیکسپیئر کے زمانہ کی املا برقرار نہیں رہی۔ ہمارے ہاں بھی یہ عمل جاری رہنا چاہیئے۔ تاہم بہت سے لوگ "اعلی" کو "اعلا" یا "خواہش" کو "خاہش" لکھنا قبول نہیں کرتے، حالانکہ جب ایک لفظ اردو میں اپنا لیا گیا تو  ضروری نہیں کہ اس کے لیئے عربی یا فارسی کی اصل املا برقرار رکھی جائے۔ بنیادی اصول یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے ہر لفظ کی املا اس کے تلفظ کے مطابق ہونی چاہیئے۔ بہرحال، میں نے اسے مسئلہ نہ بنایا۔ بنا بھی نہ سکتا تھا۔ اخبار میں تو وہی املا چھپنا تھا جو لکیر کے فقیر مدیران چاہتے۔
ادارتی صفحہ "دنیا" ہی نہیں سب اردو اخباروں کا نہائت غیر جاذب نظر اور یکسانیت کا شکار ہوتا ہے۔ جو لے آئوٹ 30، 40 سال پہلے کسی نے بنا دیا، اسی کو سب اپنائے ہوئے ہیں۔ مانا کہ ادارتی صفحہ پر تصویریں، وغیرہ، نہیں دی جا سکتیں لیکن ٹائیپ کو مخطلف طریقوں سے استعمال کر کے دلکشی پیدا کی جا سکتی ہے۔ ٹائیپ سائیز بڑا کر کے پڑھنا آسان کیا جا سکتا ہے۔ عنوان بڑے ٹائیپ میں دیئے جا سکتے ہیں اور انھیں ریورس (کالی زمین پر سفید حروف) سے نکالا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک 40، 50 سال کا "تجربہ" رکھںے والے کوچ نہیں کر جاتےاور ان کی جگہ نئی سوچ رکھنے والے اور تجربات کرنے والے نہیں لے لیتے۔
ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں نوجوان صحافیوں نے بتایا کہ سینیئر لوگ اپنے آپ کو غیرمحفوظ سمجھتے ہیں۔ انھیں ہر وقت یہی خوف رہتا ہے کہ کوئی نئی سوچ اور نئے طریقوں والا آ گیا تو ان کی چھٹی ہو جائے گی۔ نہ کسی کو کچھ سکھاتے ہیں اور نہ کسی کو آگے آنے دیتے ہیں۔انھوں نے 40، 50 سال پہلے جو کچھ سیکھا، اسی سے کام چلاتے ہیں۔ گھسے پٹے انداز سے کام کرتے رہنے سے بہتری نہیں آیا کرتی۔ نئے اخبار مالکان جن "تجربہ کار" لوگوں کو کہیں زیادہ تنخاہ اور مراعات دے کر لاتے ہیں وہ وہی کرتے ہیں جو کئی دہائیوں سے کرتے چلے آ رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سب اخبار ایک دوسرے کی نقل کرتے ہیں۔ سب میں یکسانیت ہے۔ کسی کی بھی پیشانی کاٹ دی جائے تو پتہ نہیں چلتا کہ کون سا اخبار ہے۔
سب سے بڑا مسئلہ کالم کے عنوان سے ہونے والا سلوک تھا۔ ایک کالم کا عنوان تھا، " سیاچن اور فاٹا کے مسائل کیسے حل ہو سکتے ہیں۔" اسے "دو تجاویز" کر دیا گیا۔ اس طرح کی کئی تبدیلیاں کی جاتی رہیں۔ یہاں تک کہ پی۔ آئی۔ اے۔ کا بارے میں کالم کا عنوان تھا، " پی۔ آئی۔ اے۔ کی نجکاری ایک روپیہ میں کر دیں۔" اس کی جگہ "بڑے اداروں کی نجکاری" کر دیا تھا۔ آپ نے بتایا کہ یہ "اصلاح" سجاد کریم صاحب نے فرمائی، جو ادارتی صفحات کے انچارج ہیں۔
عنوان میں اس قطعا بےمعنی تبدیلی پر مجھے شدید رنج ہوا۔ میں سوچنے لگا کہ اگر یہی کچھ ہوتا رہا تو میں زیادہ دیر برداشت نہ کروں گا۔ میں نے آپ کو یہ خط لکھا اور کہا کہ اسے سجاد کریم اور نذیر ناجی کو دکھا دیں:
=============
اپنے کالم اور اس کے عنوان کے بارے میں وضاحت
میں نے پی۔ آئی۔ اے۔ کے بارے میں ایک کالم لکھا تھا، جو "دنیا" میں 18 ستمبر کو شائع ہوا۔ سارا کالم ایئرلائین کے بارے میں تھا۔ اس میں کسی اور بڑے ادارہ کا ذکر نہ تھا۔ دوسرے، میرا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ ایئرلائین کو بہتر بنانے اور اس کا خسارہ کم کرنے پر جتنا خرچ کیا جائے گا 26 فی صڈ حصص کی فروخت کے بعد اتنی رقم بھی نہ ملے گی۔ اس سے بہت بہتر ہوگا کہ ایئر لائین خریدار کو صرف ایک روہیہ میں دے دی جائے اور اسے کہا جائے کہ تمام واجبات اور اخراجات اس کے ذمہ ہوں گے۔ اس طرح حکومت کو کچھ خرچ نہیں کرنا ہوگا۔ یہ نئی اور بہت بہتر تجویز تھی، جو اب تک کسی نے بھی پیش نہ کی تھی۔ دونوں نکات کو سامنے رکھ کر میں نے کالم کا عنوان دیا:
 “"پی۔ آئی۔ اے۔ کی نج کاری ایک روپیہ میں کر دیں
لیکن جب کالم چھپا تو اس پر عنوان تھا،
"بڑے اداروں کی نج کاری"
پڑھنے والوں نے سمجھا ہوگا کہ میں نے بھی اسی قسم کی کوئی تجویز دی ہوگی جو اکثر لوگ بڑے اداروں کی نجکاری کے لیئے دیتے رہتے ہیں۔ یوں چنانچہ انھوں نے کالم پڑھنے کے لائق نہ سمجھا ہوگا۔ یوں کالم کی تجریر سعی لاحاصل ہو گئی۔
اپنے کالم کے بارے میں وضاحت کر دوں کہ میں اخبار کی کسی خبر کو سامنے رکھ کر قلم برداشتہ نہیں لکھتا۔ نہ میں خود کو عقل کل سمجھتا ہوں کہ ملک کے ہر داخلی اور خارجی مسئلہ پر حتمی رائے دوں۔ نہ ہی مجھے بقراطی جھاڑنے کا شوق ہے۔ میری کوشش صرف یہ ہوتی ہے کہ قاری کو نئی اور مثبت سوچ دی جائے۔ چنانچہ میں مسائل کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں۔ اگر میرے ذہن میں کسی مسئلہ کا حل آتا ہے تو میں ایک نشست میں اس کا مسودہ لکھ دیتا ہوں۔ پھر کئی دن تک وقفہ وقفہ سے اسے زیادہ صحیح، زیادہ واضح، زیادہ جامع بناتا رہتا ہوں تاکہ کوئی غلطی یا جھول نہ رہ جائے۔ آُپ کو بھیجنے سے پہلے ایک بار پھر سارا کالم پڑھتا ہوں۔
کالم اور اس کے عنوان کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے خبر اور اس کی سرخی میں ہوتا ہے۔ دونوں کا مقصد قاری میں رغبت پیدا کرنا ہوتا ہے۔ مثلا، آج کے اخبار میں اگر [ نواز شریف کی تقریر کی] شہ سرخی یہ ہوتی، "چند منصوبون کا اعلان،" تو کتنے لوگ خبر پڑھتے؟ اسی طرح اگر کالم کا عنوان مبہم ہو تو قاری کو پڑھنے کی ترغیب نہیں ہوتی۔ چنانچہ میں بہت سوچ سمجھ کر عنوان دیتا ہوں کہ اس سے نفس مضمون کی نشان دہی ہو اور اس میں ندرت اور تجسس ہو تاکہ قاری میں دلچسپی پیدا ہو۔ اگر کالم کے متن میں اظہار کی آزادی ہے تو عنوان میں بھی ہونی چاہیئے۔
=======
میں نےستمبر کے آخری ہفتہ میں آپ کو فون کیا لیکن آپ نے نہیں سنا۔ میں سمجھا کہ مصروفیت ہوگی۔ چند دن بعد وقفہ وقفہ سے تین دفعہ فون کیا لیکن آپ نے نہیں سنا۔ میں سمجھ گیا کہ قطع تعلق ہو گیا ہے۔ تاہم یکم اکتوبر کو ہفتہ کا پہلا کالم بھیج دیا جو ظاہر ہے نہ چھپنا تھا نہ چھپا۔ بہرحال، اتمام حجت ہو گئی تاکہ کوئی نہ کہہ سکے کہ میں نے کالم ہی نہ بھیجا۔
مجھے آپ کا فون نہ سننا اچھا نہ لگا۔ اگر اوپر والوں میں اخلاق، مروت نہیں تو آپ کے لیئے ان جیسا رویہ اپنانا لازم نہ تھا۔ آپ "دنیا" کے ملازم ہیں، غلام نہیں۔آپ خود ہی فون کر کے مجھے کہتے، "سر، معافی چاہتا ہوں، مجھے کہا گیا ہے کہ آپ کا کالم اب نہیں چھپے گا۔" جواب میں میں نے صرف یہ کہنا تھا، "بہت اچھا۔" مجھے کیا دیا جاتا تھا، جس سے محروم ہونے پر میں احتجاج کرتا؟ میں تو اخبار بھی اپنے پلہ سے لیتا تھا۔ (وہ بھی اس لیئے نہیں کہ اخبار بڑھنے کے لائق ہے بلکہ صرف اپنے کالم کے تراشے لینے کے لیئے۔)
ہمارے ہاں نہائت ناپسندیدہ روائت ہے کہ قطع تعلق کرنا ہو تو خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔ اس طرح پیغام تو پہنچ جاتا ہے لیکن اپنے ساتھ تلخی بھی لاتا ہے جو ساری زندگی نہیں جاتی۔ اسی لیئے کہتے ہیں کہ کمرہ سے نکلیں تو دروازہ زور سے بند نہ کریں کیوں کہ ہو سکتا ہے کسی وقت اسی دروازہ سے پھر اندر آنا پڑے۔ آپ کسی کو ناپسند کرتے ہوں تو بھی ممکن ہے کہ زندگی میں پھر کسی موقع پر سامنا ہو جائے۔ اگر خوشگوار طریقہ سے علیحدہ ہوئے ہوں تو تعلق بحال کرنے میں جھجھک نہیں ہوتی۔
مجھے معلوم ہے کہ میرا کالم کس نے بند کرایا۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ اس کی وجہ کیا تھی۔ لیکن اس کی تفصیل میں جانا بے سود ہے۔
میرا کالم اخبار کے لیئے کہیں زیادہ مفید تھا۔ اگر کوئی تجویز پڑھنے والوں کو اچھی لگے تو اخبار کی نیک نامی ہوتی ہے۔ میں کئی منصوبوں پر کام کر رہا تھا، جن کی اشاعت اخبار کے لیئے بڑے فخر کا باٰعث ہوتی۔
کالم کی اشاعت بند ہونا میرے لیئے سکون اور راحت کا باٰعث بنا ہے۔ میرا دن کا بیشتر حصہ کالموں کے لکھنے اور ان کی ترمیم و تصحیح میں گزرتا۔ اب میں دوسرے کاموں پر توجہ دے سکوں گا، جو پس پشت ڈالے جاتے رہے۔ میرے لیئے کالم ویسے ہی اہم نہ تھا۔ اخبار کا ادارتی صفحہ پڑھنے والوں کے مقابلہ میں میری میلنگ لسٹ کے قارئین کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ اب میری تحریریں ان کے لیئے مخصوص ہوں گی۔ کالم نویسی خوشگوار مصروفیت ثابت نہ ہوئی
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے

سود کیسے ختم کیا جا سکتا ہے

سود کے  بارے میں بحث بہت ہو چکی۔ ہم براہ راست حل کی طرف آتے ہیں اور سوال و جواب کی شکل میں بیان کرتے ہیں کہ کیسے تھوڑی سی مدت میں بینکوں سے سود ختم کیا جا سکتا ہے۔
سوال: سود کے خاتمہ کا آغاز کیسے ہوگا؟
جواب: بینک دولت پاکستان (سٹیٹ بینک) اعلان کرے کہ اگلے مالی سال سے تمام بینک چھ فی صد سے زیادہ سود نہ کسی سے لیں گے اور نہ دیں گے۔ اس کے بعد ہر چھ ماہ کے بعد شرح سود ایک فی صد کم کر دی جائے۔ اس طرح بینکوں کو کافی وقت مل جائے گا کہ نئی صورت حال سے مطابقت پیدا کر لیں۔
دو فی صد پر پہنچ کر بینک رک جائیں گے۔ بینک دولت پاکستان کہے کہ یہ شرح سود کی نہیں بلکہ سروس چارج کی ہوگی۔ قرضوں سے اس شرح سے ہونے والی وصولی بینکوں کے اخراجات پورے کرنے کے لیئے ہوگی۔
سوال: بچت کھاتہ اور میعادی ڈپازٹ کا کیا ہوگا؟
جواب: جب سود دو فیصد ہو جائے تو بینکوں کے بچت کھاتے جاری کھاتوں میں تبدیل کر دیئے جائیں۔ اس طرح ان میں جمع رقوم پر کچھ نہیں دیا جائے گا، جیسا کہ جاری کھاتوں کی صورت میں اس وقت ہوتا ہے۔ مختلف میعادوں کے لیئے جمع کرائی گئی رقوم (فکسڈ ڈپازٹ) پر بھی کوئی سود نہیں دیا جائے گا۔
سوال: سود کے خاتمہ کے بعد لوگ بینک کھاتوں میں رقوم جمع کرانا بند نہیں کر دیں گے؟
جواب: جی نہیں۔ بینک کھاتہ میں رقوم جمع کرانے کی وجہ سود نہیں ہوتی۔ سود لینے والے قومی بچت سکیموں میں رقوم جمع کراتے ہیں، جہاں 10 سے 15 فی صد کے درمیان منافع ملتا ہے۔ اس وقت بینکوں کے بچت کھاتوں میں جمع شدہ رقوم قومی بچت سے تقریبا تین گنا ہیں۔ جب شوکت عزیز کے دور میں بچت کھاتوں کی شرح سود ڈیڑھ دو فی صد تک کم ہو گئی، تب بھی لوگوں نے بینکوں سے زیادہ رقوم نہ نکالیں۔
لوگ بینک بچت کھاتوں میں رقوم حفاظت کی خاطر جمع کراتے ہیں۔ گھر میں رکھی ہوئی نقدی ڈاکو لوٹ سکتے ہیں، گھر ہی کا کوئی فرد چرا سکتا ہے یا نوٹ کسی وجہ سے خراب ہو سکتے ہیں۔ بینک میں ایسا کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ دوسرے، بینک سے کسی بھِی وقت رقم نکالی جا سکتی ہے۔ اے۔ ٹی۔ ایم۔ مشین نے رقم نکلوانا اور آسان بنا دیا ہے۔
سوال: گاہکوں کو بینک کھاتوں سے کوئی فائدہ بھی ہوگا؟
جواب: اگر آپ باقاعدگی سے اپنے جاری کھاتہ سے رقم نکالتے اور اس میں جمع کراتے رہیں تو بینک ایک فارمولہ کے تحت طے کرتا ہے کہ آپ کو کتنا قرضہ دیا جا سکتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر آپ اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ میعادی ڈپازٹ کی صورت میں بینک سود تو نہیں دے گا لیکن اس کی بنیاد پر آپ کو بغیر کسی مزید ضمانت کے قرضہ دے سکتا ہے۔ یہ قرضہ جمع شدہ رقم کا پہلے سال میں دوتہائی، دوسرے میں تین چوتھائی اور تیسرے سال تک جمع رکھنے پر رقم کے 90 فیصد کے برابر ہو سکتا ہے۔ اگر کسی کے پاس رقم پڑی ہے تو وہ اسے جمع کرا کے ضرورت پڑنے پر قرضہ لے سکتا ہے۔
بینک کھاتہ داروں کو بہت سی سہولتیں مفت دے گا، جیسے چیک بک، رقوم کی آن لائین ترسیل، ادائگی (ڈیبٹ) کارڈ، بینک ڈرافٹ، وغیرہ۔
سوال: قرضہ کس بنیاد پر ملےگا؟
جواب: اس وقت بینک زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لیئے قرضہ دیتے ہیں۔ سود ختم ہونے کے بعد قرضوں کی مانگ بہت بڑھ جائے گی۔ چنانچہ بینک دولت پاکستان بینکوں کو ترجیحات کا پابند کرے گا۔ چند مثالیں: برامدات کی ْآمدنی سے ہم غیرملکی قرضے اتار سکتے ہیں اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ سے روپیہ کی قدر بڑھا سکتے ہیں۔ چنانچہ بینک برامدی آرڈر ملنے (لیٹر آف کریڈٹ کھلنے) سے مال کی ترسیل تک تمام برامد کاروں کو تمام مراحل کے لیئے قرضے دیں گے، چاہے مال خود بناتے ہوں یا بنا ہوا مال دوسروں سے خریدتے ہوں۔ برامد کی رقم ملتے ہی بینک اپنا قرضہ وضع کر کے بقایا رقم برامدکار کے کھاتہ میں جمع کرا دے گا۔ بلاسود قرضہ سے برامدات کی لاگت کم ہو جائے گی،جس سے دوسرے ملکوں سے مقابلہ آسان ہو جائے گا۔ دوسری ترجیح صنعتوں کو خام مال اور جاری اخراجات کے لیئے قرضوں کی ہوگی۔ تیسری ترجیح پیداواری کاموں کے لیئے ہوگی، جیسے کسانوں کو بیج، کھاد، کیڑے مار دوائوں کے لیئے قرضہ، جو فصل کی کٹائی کے بعد ادا کرنا ہوگا۔ تاہم ذخیرہ اندوزوں کو گندم، روئی، چینی، وغیرہ، سستی خرید کر مہنگی بیچنے کے لیئے قرضہ نہیں ملے گا۔
سوال: کیا مکانوں اور عمارتوں کی تعمیر کے لیئے قرضے ملیں گے؟
جواب: تعمیرات کے لیئے قرضہ ملے گا بشرطیکہ انھیں بیچنے کی بجائے کرایہ پر دیا جائے۔ تعمیراتی کمپنی کو مناسب منافع دے کر بینک خود خرید سکے گا اور پھر ایک ذیلی کمپنی کے ذریعہ رہن یا کرایہ پر دے سکتا ہے یا کسی بیمہ کمپنی کو فروخت کر دے گا۔ یہ لاگت پوری ہونے کے بعد کئی دہائیوں تک آمدنی کا ذریعہ ہوگا۔
سوال: حکومت کو بینکوں سے قرضے ملیں گے؟
جواب: ہرگز نہیں۔ حکومت کو قرضے نہیں دیئے جائیں گے، چاہے اس کے لیئے قانون بنایا جائے یا آئین میں ترمیم کرنی پڑے۔ حکومت اور سرکاری اداروں کا بلا سود قرضوں پر دل للچائے گا لیکن ان کی طلب پوری کرنے سے نجی شعبہ کو قرضے بہت کم ہو جائیں گے، جس سے معیشت کو بھاری نقصان ہوگا۔ حکومت کو قرضے دینے سے افراط زر میں یقینی اضافہ ہوتا ہے۔
سوال: بینکوں کے حصہ داروں کا کیا بنے گا؟
جواب: جب بینکوں نے حصص جاری کیئے تو ان کی قیمت بہت کم تھی۔ اگر بازار حصص میں قیمت بڑھ گئی تو اس میں ان کا کوئی کمال نہ تھا۔ وہ اب تک وصول کِیئے گئے منافع کو غنیمت سمجھیں۔
سوال: غیرملکی بینکوں کا کیا ہوگا؟
جواب: غیرملکی بینک صرف منافع کمانے کے لیئے یہاں ہیں۔ کئی بینک جا چکے ہیں کیوں کہ انھیں توقع کے مطابق منافع نہ ہوا۔ جو رہ گئے ہیں، وہ بھی چلے جائیں گے تو ہمارے بینک ان کا چھوڑا ہوا کاروبار سنبھال لیں گے۔
سوال: ہمارے بینکوں کی دوسرے ملکوں میں شاخیں بھی بلا سود بینکاری کریں گی؟
جواب: دوسرے ملکوں میں بلاسود بینکاری کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہوگی۔ اگر اخراجات نکال کر کچھ بچا پائیں تو صدر دفتر بھیج دیا کریں گے۔ اگر خرچ اور آمدنی برابر رہیں تو بھی حرج نہیں کیونکہ وہ برامدات کو فروغ دے رہی ہوں گی۔
ہمارے بینکوں کی دوسرے ملکوں میں بلاسود بینکاری متعارف کرانا بہت بڑی خدمت ہوگی۔ مسلم ہی نہیں، غیر مسلم ملکوں میں بھی بلا سود بینکاری کی ترغیب ملے گی۔ عوام سود کی لعنت ختم کرانے کے لیئے اپنی حکوتوں پر زور دیں گے۔ البتہ ان کی کامیابی کا امکان زیادہ نہیں ہوگا کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام تو  چلتا ہی سود پر ہے۔ سود کھانے والے آسانی سے یہ کمائی نہیں چھوڑیں گے۔ تاہم ہو سکتا ہے جب عوام کی اکثریت قائل ہو جائے اور ان کے منتخب نمائندے ان کے مطالبہ کے سامنے سر جھکا دیں تو وہاں بھی سود ختم نہیں تو نہائت کم ہو جائے گا۔
سوال: اگر بینک کے حصہ داروں نے عدالت سے رجوع کر کے موقف اختیار کیا کہ انھیں منافع کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے تو کیا ہوگا؟
جواب: حصہ دار اپنے حق میں کوئی ٹھوس دلیل نہیں دے پائیں گے۔ بینک منافع کما کر ہی انھیں دے سکتا ہے۔ جب خود بینک کو منافع کی بجائے اخراجات پورے کرنے کے لیئے صرف سروس چارج ملے گا تو وہ حصہ داروں کو کیا دے سکے گا؟ بینک اپنی طرف سے بھی شرح سود نہیں بڑھا سکتا کیونکہ بینک دولت پاکستان بنیادی شرح سود طے کرتا ہے، جس کی بنا پر بینک اپنی شرح طے کرتے ہیں۔ بینک کو صرف اتنا اختیار ہوتا ہے کہ کسے قرض دیں اور کسے نہ دیں۔
پبلک لمیٹڈ کمپنی کے حصہ دار منافع بطور حق نہیں مانگ سکتے۔ کمپنی پر منحصر ہے کہ وہ منافع میں سے انھیں کچھ دے۔ کراچی بازار حصص میں جن کمپنیوں کے حصص کی خرید و فروخت کی جاتی ہے، ان میں سے بیشتر حصہ داروں کو کوئی منافع نہیں ملتا۔ سارے بینک پبلک لمیٹڈ کمپنیاں ہیں۔ چنانچہ ان پر کوئی پابندی نہیں کہ وہ حصہ داروں کو باقاعدگی سے منافع دیں۔
سوال: اس وقت حصہ دار سالانہ جنرل باڈی میٹنگ میں بینکوں کی انتظامیہ، یعنی ڈائریکٹروں کے بورڈ، کا انتخاب کرتے ہیں۔ جب انھیں معلوم ہوگا کہ انھیں آئندہ بینک سے منافع نہیں ملے گا تو وہ جنرل باڈی میٹنگ میں شریک ہی نہیں ہوا کریں گے۔ پھر انتظامیہ کو کون کنٹرول کرے گا؟
جواب: سالانہ جنرل باڈی میٹنگ تکلف ہی ہوتا ہے۔ ہزاروں بلکہ بعض اوقات لاکھوں حصہ داروں میں سے چند سو ہی شریک ہوتے ہیں۔ انتخاب بھی رسمی کاروائی ہوتی ہے۔ جو نام انتظامیہ تجویز کرتی ہے وہی منظور ہو جاتے ہیں۔
نئے نظام میں حصہ داروں کی بجائے بینک کے گاہکوں کا دخل ہوگا اور صحیح معنوں میں ہوگا۔ بینک کی ہر برانچ کے تمام کھاتہ داروں کو ہر ششماہی ایک سوال نامہ بھیجا جائے گا، جس میں ان سے بینک کی خدمات کے بارے میں پوچھا جائے گا، جیسے عملہ کا گاہکوں سے رویہ، چیک کیش کرانے میں لگنے والا وقت، بینک کا ماحول، استفسار کا جواب، وغیرہ۔
سوال نامہ کے آخر میں کھاتہ داروں سے پوچھا جائے گا کہ کیا وہ موجودہ بینک مینجر کے کام سے مطمئن ہیں؟ اگر دو تہائی گاہکوں نے ہاں میں جواب دیا تو تو مینیجر کام کرتا رہے گا۔ ورنہ اسے کھڈے لائیں (یعنی کسی کم اہم کام پر) لگا دیا جائے گا ۔ جب مینیجر کی ملازمت کے جاری رہنے کا انحصار گاہکوں کے اطمینان پر ہی ہوگا تو وہ ہمہ وقت ان کی خدمت کرے گا۔ نہ صرف یہ بلکہ عملہ کو بھی ایڑیوں کے بل کھڑا رکھے گا۔ سوال نامہ میں کھاتہ داروں نے جو شکایات درج کی ہونگی، مینجر ان کا فورا ازالہ کرے گا۔
سوال نامہ تمام گاہکوں کو ڈاک سے براہ راست بھیجا جائے گا۔ جواب بھی براہ راست ایک آزاد اور خود مختار فرم کو وصول ہوں گے، جو ان کا تجزیہ کرے گی اور بینک کے سربراہ کو رپورٹ دے گی۔ اس طرح، کسی برانچ مینجر کو معلوم نہیں ہوگا کہ کھاتہ دار اس کی برانچ کی کارکردگی اور خود اس کے بارے میں کیا رائے دے رہے ہیں۔
سوال: اعلا انتظامیہ کا انتخاب کیسے ہوگا؟
جواب: بینک کی اپنی اعلا انتظامیہ برانچ مینیجروں کی تائید کی محتاج ہوگی۔ چونکہ برانچ مینیجر ہی ریجن اور صدر دفتر سے رابطہ میں ہوتا ہے، اس لیئے وہی رائے دے سکتا ہے کہ اس کے باس کیسے کام کر رہے ہیں۔ نائب صدر، سینیئر نائب صدر، وغیرہ، اپنی کارکردگی کی بنا پر ملازمت میں رہیں گے۔ آخر میں بینک کا صدر ملک بھر میں بینک کے سارے عملہ سے اعتماد کا ووٹ لے گا۔ جب تک اعتماد کا ووٹ دو تہائی اکثریت سے ملتا رہے گا، وہ کام کرتا رہے گا۔
سوال: چھوٹے بینکوں کا کیا مستقبل ہوگا؟
جواب: سرمایہ داروں نے چھوٹے بینک اپنے فائدہ کے لیئے بنائے ہیں۔ جب انھیں کوئی فائدہ نظر نہیں آئے گا تو وہ انھیں بڑے بینکوں کے ہاتھ بیچ دیں گے۔ اگر بیچ نہ سکے تو بند کر دیں گے۔ اب تک انھوں نے بہت فائدہ اٹھا لیا ہوگا۔
سوال: عملہ کی کارکردگی کیسے بہتر ہو سکتی ہے؟
جواب: تمام بینک مشترکہ طور پر سلیکشن بورڈ بنائیں۔ سب اپنی اپنی خالی اسامیوں کی تعداد اسے بتائیں۔ بورڈ عملہ کا انتخاب صرف میرٹ پر کرے۔ منتخب عملہ کو ایک ہی اکیڈمی میں تربیت دی جائے تاکہ سب کا معیار ایک جیسا ہو۔ تربیت کے دوران ہی ہر بینک کے نمائندے اپنے لیئے عملہ چنیں تاکہ وہ تربیت ختم ہوتے ہی کام کرنے لگے۔
تجویز کردہ طریقہ سے بینکوں سے سود ختم کرنا بہت آسان ہوگا۔ نہ کسی آئینی ترمیم کی ضرورت ہوگی، نہ پارلیمنٹ کی منظوری کی۔ البتہ جن کے مفاد کو نقصان ہوگا، وہ چار دن واویلا کرتے رہیں گے۔ اتنا تو برداشت کرنا ہوگا۔ 

موجودہ قوانین اسلام کے مطابق کیسے بنائے جائیں

آئین کی دفعہ 227(1) میں کہا گیا ہے، "تمام موجودہ قوانین کو قرآن مجید اور سنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا، ۔ ۔ ۔ اور ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا، جو مذکورہ احکام کے خلاف ہو۔" اس سلسلہ میں سفارشات دینے کے لیئے 1973 میں آئین کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل بنائی گئی۔ اس سے پہلے اسی مقصد کے لیئے 1962 میں اس وقت نافذ آئین کے تحت اسلامی مشاورتی کونسل بنائی گئی تھی۔ نظریاتی کونسل اب تک بیشتر قوانین کے بارے میں اپنی سفارشات حکومت کو بھیج چکی ہے۔ (تفصیل کے لیئے کونسل کی ویب سائیٹ دیکھیں http://www.cii.gov.pk/) حکومت نے ابھی تک سفارشات پارلیمنٹ میں پیش ہی نہیں کیں، ان کے مطابق قانون سازی تو بعد کی بات ہے۔  اگر پیش کر دے تو بھی پتہ نہیں مزید کتنی دیر لگے۔
قوانین کو اسلامی احکام کے مطابق بنانے میں 50 سے زیادہ سالوں کی تاخیر کیوں ہوئی؟ ہمارے حکمرانوں کو یا تو اس میں دلچسپی نہ تھی یا وہ ذہنی غلامی کے تحت گوروں کی تنقید سے ڈرتے ہیں۔ چنانچہ اسلام کے نام پر قائم ملک میں اسلامی احکام کا نفاذ نہیں ہو پا رہا۔
مسئلہ کا حل کیا ہے؟ جب سیدھی انگلی سے گھی نہ نکلے تو ٹیِڑھی کرنی پڑتی ہے۔ ایسا ہی کچھ اس سلسلہ میں کرنا ہوگا۔ مروجہ طریق کار تو یہ ہے کہ حکومت کونسل کی رپورٹیں پارلیمنٹ میں پیش کرنے کے بعد شائع کرے۔ پارلیمنٹ انھیں متعلقہ کمیٹی کو بھیج دے۔ کمیٹی کی سفارشات ایوان میں پیش کی جائیں اور پھر اس کے مطابق قانون سازی کی جائے۔ کونسل طریقہ کار سے تھوڑا سا انحراف کر کے تمام سفارشات اپنی ویب سائیٹ پر شائع کر دے۔ اس کا جواز یہ پیش کیا جائے کہ اس طرح دین اور قانون کے ماہرین کی رائے لی جائے گی تاکہ جہاں ضروری ہو جائے کونسل اپنی سفارشات میں تصحیح و تنسیخ کر سکے۔ اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔
کونسل اپنی سفارشات ویب سائیٹ پر تین حصوں میں دے۔ پہلے حصہ میں ان قوانین کی فہرست ہو، جو کونسل کے مطابق اسلامی احکام کے خلاف ہیں اور انھیں کالعدم قرار دیا جانا چاہیئے۔ دوسرے حصہ میں وہ قوانین ہوں، جن میں ترامیم ہونی چاہیئیں۔ تیسرے حصہ میں وہ قوانین ہوں، جن کے بارے میں کونسل کی سفارشات ابھی تک مرتب نہیں ہوئیں۔
آئین کی دفعہ 203-ڈی کے تحت وفاقی شرعی عدالت کو اختیار ہے کہ وہ خود، وفاقی یا صوبائی حکومت یا کسی شہری کی درخاست پر فیصلہ کر دے کہ کوئی قانون یااس کا کوئی جزو اسلامی احکام کے خلاف ہے۔ وہ اپنے فیصلے کے سلسلہ میں اپنے دلائل دے گی اور طے کرے گی کہ کس تاریخ کے بعد اس کا فیصلہ نافذ ہوگا۔ تاریخ کے تعین میں دیکھا جائے گا کہ اس سے پہلے سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کی مدت گزر جائے یا دائر کردہ اپیل کا فیصلہ ہو جائے۔ جب فیصلہ نافذ ہو جائے تو حکومت (وفاقی یا صوبائی) اس پر عمل کرے گی۔
وفاقی شرعی عدالت سے رجوع اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عمل کرانے کا موثر طریقہ ہے۔ چنانچہ کوئی شہری، جسے ان قوانین میں سے کسی کے تحت نقصان ہو رہا ہو، وفاقی شرعی عدالت سے رجوع کرے اور درخاست کرے کہ اسلامی احکام کے خلاف ہونے کی بنا پر اس قانون کو کالعدم قرار دے دیا جائے۔ اگر عدالت اتفاق کرے تو فیصہ دے دے کہ حکومت مناسب مدت (مثلا 90 دن) میں اسے ختم کرے۔ اگر نہ کرے تو قانون خود بخود کالعدم ہو جائے۔

اسی طرح جس شہری کو کسی موجودہ قانون مین کونسل کی سفارش کے مطابق ترمیم ہونے سے فائدہ ہو سکتا ہو، وہ بھی وفاقی شرعی عدالت سے درخاست کرے کہ حکومت سے کہے کہ مناسب مدت میں ترمیم کر دے۔ اگر نہ کی جائے تو مجوزہ ترمیم خود بخود نافذ ہو جائے۔
اگر شرعی عدالت کسی مجوزہ ترمیم سے اتفاق نہ کرے تو وہ اسلامی نظریاتی کونسل کو حکم دے سکتی ہے کہ وہ اس کی بیان کردہ وجوہ کے پیش نظر اپنی سفارش پر نظرثانی کرے۔ اس سلسلہ میں عدالت دین اور قانون کے ماہرین کی رائے بھی لے سکتی ہے۔
جب وفاقی شرعی عدالت کے کچھ فیصلے سامنے آئیں گے تو لوگ خود یا اپنے وکیلوں کے مشورہ پر کونسل کی سفارشات پر عمل کرانے کے لیئے عدالت سے رجوع کرنے لگیں گے۔ میڈیہ بھی جاگ جائے گا اور عدالت میں دی جانے والی درخاستوں اور ان پر فیصلوں کو اجاگر کرنے لگے گا۔ بات پارلیمنٹ تک پہنچے گی، جہاں اپوزیشن حب علی نہ سہی، بغض معاویہ کے تحت ہی مطالبہ کرے گی کہ حکومت نظریاتی کونسل کی تمام سفارشات ایوان میں پیش کرے اور ان پر قانون سازی کرے۔ عوام کی نظروں میں سرخرو ہونے کے لیئے اپوزیشن کی ہر پارٹی آواز بلند کرے گی۔ خود اکثریتی پارٹی کے بیشتر ارکان بھی قانون سازی کی حمائت کریں گے۔ کچھ آوازیں مخالفت میں بھی اٹھیں گی، خاص طور پر میڈیہ میں۔ بیرونی امداد سے چلنے والی غیر سرکاری تنظیمیں (این۔جی۔او۔) شور مچائیں گی۔ (آخر جو دوسرے ملکوں کا نمک کھاتے ہیں، انھوں نے حلال بھی تو کرنا ہوگا۔) تاہم اکثریت کی آواز حاوی ہوگی، خاص طور پر سیاست کاروں کی، جنھوں نے بعد میں عوام سے ووٹ مانگنے ہیں۔
موجودہ قوانین کے اسلامی احکام کے مطابق بنائے جانے کے بعد مطالبہ آئے گا کہ آئندہ جو قوانین بنائے جائیں، ان کے بارے میں پہلے اسلامی نظریاتی ونسل کی رائے لی جائے اور وفاقی شرعی عدالت سے بھی استفسار کیا جائے۔ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے قواعد میں پہلے سے طے ہے کہ مسودہ قانون کو رائے عامہ جاننے کے لیئے مشتہر کیا جا سکتا ہے۔ گو اب حکمران اتنے پوشیدہ طریقہ سے کام کرتے ہیں کہ اپوزیشن کو بعض اوقات مسودہ قانون کی نقل ہی نہیں دی جاتی، یہاں تک کہ آئین میں ترمیم بھی نہائت خفیہ طریقہ سے کر لی جاتی ہے، جیسے 18ویں ترمیم کے ساتھ ہوا۔ 
ہم نے ملک اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیئے بنایا تھا۔ دیر سے ہی سہی، تمام قوانین کو اسلامی احکام کے  مطابق بنا لیا جائے گا تو ہم دوسرے مسلمانوں کے لیئے روشن مثال قائم کریں گے۔

 یکم ستمبر 2013




Monday, October 14, 2013

پی۔ آئی۔ اے۔ کی نجکاری ایک روپیہ میں کر دیں

مقصد زیادہ اہم ہوتا ہے، طریق کار نہیں۔ بیمار کو صحت سے غرض ہوتی ہے، اس سے نہیں کہ علاج کس طرح ہو اور کون کرے۔
دہائی-1960 میں نور خاں اور اصغر خاں نے پی۔ آئی۔ اے۔ کی بنیاد مضبوط کر کے بلندی کی طرف محو پرواز کر دیا۔ میڈیہ اور دانشوروں نے توجہ نہ دی۔ جیسا کہ عام رویہ ہے، گھر کی مرغی دال برابر سمجھی گئی۔ جب امریکی ہفت روزہ، "ٹائیم،" نے تعریفی مضمون شائع کیا تو ایک دم ہر طرف سے پی۔ آئی۔ اے۔ کی واہ واہ ہونے لگی۔
زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ ایئرلائین کی بہتری پر توجہ کم اور اپنے چہیتوں کو نوازنے پر زیادہ ہو گئی۔ پھر بھرپور لوٹ مار کا دور آیا۔ سفارش پر نااہل افراد پھرتی کیئے جانے لگے، وہ بھی ضرورت سے کہیں زائد۔ ہر قسم کی خریداری میں کمشن کے لیئے بے تابی ظاہر ہونے لگی۔ ہر شعبہ میں بدعنوانی حاوی ہوگئی۔ جسے اس کا سربراہ بنایا جاتا وہ جلد از جلد زیادہ سے زیادہ مال بنانے کی کوشش کرتا۔ حالات اتنے خراب کر دیئے گئے کہ اب نج کاری کے سوا کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔
نج کاری کا صحیح وقت وہ تھا جب پی۔ آئی۔ اے۔ اچھی حالت میں تھی لیکن اس بارے میں کوشش ہی نہ کی گئی۔ حکمرانوں کو سمجھ نہ آئی کہ حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں ہوتا۔ یہی نہیں، انھوں نے فرض کر لیا کہ وہی پی۔ آئی۔ اے۔ کے مالک ہیں۔ اس لیئے انھیں اس کی زیادہ سے زیادہ قیمت لینی چاہیئے۔ انھوں نے نظرانداز کر دیا کہ ایئرلائین عوام کے پیسہ سے بنائی گئی۔ حکومت تو صرف امین تھی۔ اس کی ذمہ داری اتنی تھی کہ اسے اچھے انداز میں چلایا جائے۔ زیادہ سے زیادہ قیمت کے انتظار میں حالت خراب تر ہوتی رہی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ قیمت چڑھنے کی بجائے گرتی گئی۔ اب لینے کی بجائے دینے کی نوبت ْا سکتی ہے۔
یہ سوچنا کوتاہ اندیشی ہوگی کہ حالات سدھار کر نج کاری کی جائے۔ اول تو ایسا منتظم ملنا بہت مشکل ہے جو یہ کارنامہ سرانجام دے سکے۔ اگر مل جائے اور منافع بخش بنا دے تو پھر کیوں نہ اسی کی سربراہی ہی میں ایئرلائین چلتی رہے؟ نج کاری کیوں کی جائے؟۔ دوسرے، جتنا خرچ ہوگا نج کاری کے بعد لگ بھگ اتنا ہی وصول ہوگا۔ پھر فائدہ؟
مسئلہ کا حل یہ ہے کہ "جیسی ہے" کی بنا پر ہی پی۔ آئی۔ اے۔ کے 26 فی صد حصص کسی پاکستانی کو ایک روپیہ میں دے دیئے جائیں۔ (لین دین کے معاہدہ میں قانون کی رو سے رقم کا درج ہونا ضروری ہوتا ہے، جو کم از کم ایک روپیہ ہوگی۔)
ایک روپیہ میں بھی یہ سودہ خریدار کے لیئے کسی طرح سستا نہیں ہوگا۔ ذرا حساب لگائیں: (الف) اب تک کے تمام قرضے اور واجبات اس کے ذ٘مہ ہوں گے۔ (ب) تمام جاری اخراجات برداشت کرنے ہوں گے۔ (پ) بہتری لانے کے لیئے اپنی طرف سے بھی سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔
حکومت کی یہ ساری بچت اس رقم سے کہیں زیادہ ہوگی جو ایئر لائین کی حالت بہتر بنا کر نجکاری سے ملنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ روز بروز بڑھتے خسارہ سے بھی فوری طور پر چھٹکارہ مل جائے گا۔ حالت بہتر بنانے کے لیئے بھی اپنی طرف سے کچھ نہیں دینا ہوگا۔
خریدار کو کاروبار کا خسارہ کاروبار ہی سے پورا کرنا ہوگا۔ ایک طرف اخراجات گھٹانے ہوںگے اور دوسری طرف آمدنی بڑھانی ہوگی۔ وہ جو کچھ خرچ کرے گا آمدنی سے کرے گا یا اپنے سرمایہ سے۔ اسے کوئی جہاز، عمارت، زمین یا کوئی اور اثاثہ بیچنے کی اجازت نہ ہو۔
ہوائی جہاز اڑتا رہے تو کمائی دیتا ہے، کھڑا رہے تو کمائی کھاتا ہے۔ اس لیئے سب سے پہلا کام تمام جہازوں کو اڑنے کے قابل بنانا ہوگا۔ آمدنی بڑھانے کے لیئے وہ تمام پروازیں بحال کی جائیں جو بھلے وقتوں میں اڑا کرتی تھین۔ اندرونی اور بیرونی کرائے کم کیئے جائیں تاکہ ہر پرواز میں خالی سیٹیں کم سے کم ہوں۔
جب راج چوپٹ ہوتا ہے تو بہت سے اخراجات بلاجواز ہونے لگتے ہیں۔ ایسے اخراجات ختم کرنے سے خاصہ فرق پڑے گا نہائت حساس مسئلہ ملازموں کا ہوگا۔ ان میں (الف) نااہل اور کام چور ہیں، جو سفارش یا رشوت سے بھرتی ہوئے، (ب) اہل ہیں لیکن ان کے لیئے کام نہیں، اور (پ) اہل ہیں اور ان کے لیئے کام پیدا کیا جا سکتا ہے۔
جن ملازموں کی ضرورت نہیں انھیں یک لخت ​گولڈن ہینڈ شیک سے ​فارغ کرنے کی بجائے چھ سے 12 ماہ کی مہلت دی جائے تاکہ وہ کوئی اور ملازمت یا کام ڈھونڈ سکیں۔ وہ بوجھ تو ہیں لیکن آخر انسان ہیں، ان کے بال بچے ہیں، اور ایک کی تنخاہ پر پر کئی فراد پلتے ہیں۔
حکومت کو غیرملکی ایئرلائینوں کو پہنچایا گیا بلاجواز فائدہ ختم کرنا ہوگا۔ تسلیم شدہ طریقہ ہے کہ دوسرے ملک پی۔ آئی۔ اے۔ کو اپنے جتنے شہروں کو جانے دیں اور جتنی پروازوں کی اجازت دیں، وہی سہولت جواب مں دی جانی چاہیئے۔ دوسرے ملکوں کی ایئرلائینوں کو دیئَے گئے زائد شہر اور روٹ ختم کرنے ہوں گے۔
آملہ اور سیانے کی بات کی طرح ایک روپیہ میں نجکاری کا فائدہ بعد میں ظاہر ہوگا۔ جب پی۔ آئی۔ اے۔ کو منافع ہونے لگے گا تو اس میں سے حکومت کو اپنے 74 فی صد حصص پر منافع ملے گا۔ اس طرح حکومت کو منافع ملنے لگے گا اور کوئی درد سر بھی نہیں رہے گا ۔ خسارہ میں چلنے والی دوسری کمپنیوں کے لیئے بھی ایسا ہی کیا جا سکتا ہے۔
یہ کوئی انوکھی صورت حال نہیں ہوگی۔ پرویز مشرف دور میں بینکوں کی نج کاری کی گئی۔ زیادہ رقم وصول نہ ہوئی۔ لگا کہ گھاٹہ کا سودہ ہے۔ لیکن جب بینکوں کی حالت بہتر ہوئی تو خریداروں کے حصص کے ساتھ حکومت کے حصص کا منافع بڑھ گیا اور ان کی مالیت بھی۔ اس طرح پیشگی ملنے والی رقم میں کمی کی تلافی ہو گئی۔
حکومت کو بہت اہم فیصلہ یہ کرنا ہوگا کہ خریدار اپنے ملک کا ہو۔ ایک حصہ بھی کسی غیرملکی یا دہری شہریت والے کو اب یا بعد میں ہرگز نہ دیا جائے۔ کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی غیرملکی سرمایہ کاروں کو دینے کا نتیجہ ہمارے سب سے بڑے شہر کے باشندے بڑی بری طرح بھگت رہے ہیں۔ 

کیوں نہ صوبے ختم کر دیئے جائیں؟

پلیناریہ (Planaria) ایک قسم کا کیڑہ ہوتا ہے، جس کے دو ٹکڑے کر دیئے جائیں تو ہر ٹکڑہ جلد ہی مکمل شکل اختیار کر لیتا ہے۔ پھر ان دو کے دو دو ٹکڑے کر دیئے جائیں تو وہ بھی مکمل شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
یہی صورت صوبوں کی ہے۔ پہلے ہزارہ ڈویژن کو صوبہ بنانے کا مطالبہ ہوا۔ پھر بہاولپور اور جنوبی پنجاب کے صوبوں کی بات ہونے لگی۔ اس کے بعد پوٹھوہار صوبہ کی قیام کی قرارداد منظور کرانے کے لیئے اسمبلی میں پیش کی گئی۔ پنجاب میں بئے صوبے بنائے گئے تو پھر باقی صوبوں کی تقسیم کا مطالبہ ہوگا۔ م۔ ق۔ م۔ (متحدہ قومی موومنٹ) کراچی اور حیدراباد پر مشتمل نیا صوبہ چاہتی ہے۔ ہر ڈویژن کو صوبہ بنانے کا مطالبہ تو پہلے سے ہی ہو رہا ہے۔ یہ سلسلہ چلتا رہا تو ایسا وقت بھی آ سکتا ہے کہ ہر ضلع کو صوبہ قرار دینے کا مطالبہ ہو۔ تو کیوں نہ ایک ہی مرحلہ میں صوبوں کو ختم کر کے سیدھے ضلعوں تک چلے جائیں؟
فورا اعتراض ہوگا کہ ایک بار پہلے بھی اکتوبر 1955 میں صوبے ختم کر کے ون یونٹ بنایا گیا تھا۔ اس سے لوگوں کے لیئے بڑی مشکلات پیدا ہو گئیں۔ انھیں ہر مسئلہ کے حل کے لیئے بہت دور صوبائی دار الحکومت جانا پڑتا۔ چنانچہ یحی خاں نے 1970 میں صوبے بحال کر دیئے (گو اصل وجہ سیاسی معاملات پر اتفاق رائے روکنا تھا)۔
چلیں، صوبوں کی بحالی سے ون یونٹ سے پیدا ہونے والے مسائل ختم ہو گئے۔ اب کیا ہوا کہ پرانے صوبوں پر گزارہ کرنا مشکل ہو گیا؟ اصل مسئلہ حکومت کو عوام کے قریب تر لانے کا ہے، تاکہ مسائل آسانی سے حل ہو سکیں۔ یہ کالم صوبے ختم کرنے سے بڑی اچھی طرح ہو جائے گا۔
موجودہ صوبے غلامی کے دور میں بنائے گئے۔ کسی کی بنیاد لسانی، نسلی، ثقافتی، وغیرہ، نہ تھی۔ انگریزوں کی صرف انتظامی ضروریات تھیں۔ چنانچہ سارے اختیارات صوبوں کو دے دیئے گئے، جن کے سربراہ ہمیشہ بااختیار انگریز ہوتے۔ اضلاع میں ڈپٹی کمشنر صوبائی اور مرکزی حکومت کے احکامات کی تعمیل کراتے تھے۔ ضلع کی پولیس اس کے ماتحت ہوتی تھی۔ عوام صرف رعایا تھے۔ ضلع سے نیچے پنچائتیں تھیں۔ 1912، 1926 اور 1939 میں پنجاب میں پنچائتیں بنانے کے لیئے قانوں نافذ کیئے گئے۔ ان کے تمام ارکان ڈپٹی کمشنر نامزد کرتا تھا۔ پھر بھی 1952 تک صرف ایک تہائی اضلاع میں پنچائتیں بنائی گئیں۔
آزادی کے بعد مقامی سطح پر جو نظام بنائے گئے وہ بڑی حد تک غیرموثر تھے، کیونکہ انھیں ایک طرف اختیارات نہ دیئے گئے اور دوسری طرف افسرشاہی کا ان پر غلبہ رہا۔ ایوب خاں نے بنیادی جمہوریتوں کا نظام نافذ کیا۔ ضیاء الحق نے 1979 میں اس میں بہت سی ترامیم کیں۔ ہمارے بیشتر سیاست کاروں اور افسروں کو یہی نظام پسند ہے کیونکہ اصل اختیارات ان کے اپنے ہاتھ میں رہیں گے۔
2001 میں نافذ ہونے والے مقامی حکومتوں کے نظام میں اضلاع کو اتنے سیاسی، مالی اور انتظامی اختیارات دے دیئے گئے کہ صوبوں کے کرنے کو صڑف پالیسی سازی رہ گئی۔ دوسری طرف، آئین میں 18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو اتنے اختیارات دے دیئے گئے، جنھیں وہ استعمال ہی نہیں کر پا رہے۔ اگر پالیسی سازی کے اختیارات واپس مرکز کے پاس چلے جائیں اور 2001 کا مقامی حکومتوں کا نظام پوری طرح اور اصل شکل میں بحال ہو جائے تو صوبوں کی ضرورت ہی نہیں رہے گی اور عوام کی مسائل بھی آسانی سے حل ہوں گے۔
صوبے مرکز سے ملنے والی رقوم سے کام چلاتے ہیں۔ ان کی اپنی ٹیکس آمدنی 10 فی صد سے بھی کم ہوتی ہے، جیسا کہ ذیل میں دیئے گئے چارٹ سے ظاہر ہوتا ہے:
2010 میں صوبوں کی آمدنی، بلین روپوں میں
صوبہ    کل آمدنی    اپنی ٹیکس آمدنی                %      غیرٹیکس آمدنی
پنجاب        436.5               36.8                   8.4             76.2
سندھ         240.5               22.1                   9.2           93.2
خیبر        133.4               3.5                     2.6           53.7
بلوچستان   44.8                1.1                     2.5           1.3
اگر صوبوں نے قومی مالیاتی ایوارڈ کے تحت مرکز سے ملنے والی رقوم ہی خرچ کرنی ہیں تو یہ کام ضلع حکومتیں کہیں بہتر طور پر کر سکتی ہیں۔ ان کے منتخب نمائندں کو اپنی ضرورتوں کا علم صوبائی صدر مقام میں بیٹھے افسروں سے کہیں زیادہ ہوگا۔ مرکزی حکومت طے شدہ فارمولہ کے تحت اضلاع کو براہ راست رقوم دے دے۔ جن منصوبوں کا تعلق دو یا اس سے زیادہ اضلاع سے ہو (جیسے بڑی سڑک، چھوٹا ڈیم، نہروں کا نظام)، وہ یا تو متعلق ضلع ناظمین یا ضلع کونسلیں اتفاق رائے سے بنا سکتے ہیں یا مرکزی حکومت کر سکتی ہے۔
مقامی حکومتوں کے نظام کے نفاذ کے بعد صوبوں کے پاس صرف پالیسی سازی رہ گئی۔ یہ کام مرکزی حکومت سارے ملک میں یکساں اور کہیں بہتر طور پر کر سکتی ہے۔ صوبے مختلف اور متضاد پالیسیاں بناتے ہیں۔ مثلا، یکساں ٹرانسپورٹ پالیسی اور موٹرگاڑیوں کی رجسٹریشن کا ایک نظام نہ ہونے سے ٹرانسپورٹروں کے لیئے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
صوبے ختم ہونے سے پالیسی معاملات مرکزی حکومت کے اور دوسرے تمام معاملات ضلع حکومتوں کے سپرد کر دیئے جائیں۔
عمل کیسے ہوگا؟ یونین ناظم بلحاظ عہدہ پارلیمنٹ  کا رکن ہوگا اور ضلع کونسل کا بھی۔ چنانچہ وہ پارلیمنٹ اور ضلع کونسل دونوں کی کاروائی میں حصہ لیا کرے گا۔
سیاست کار تو کبھی صوبے ختم کرنے پر رضامند نہیں ہوں گے۔ چنانچہ، غیرمعمولی طریقہ اپنانا ہوگا۔ پہلے آئین میں ضروری ترمیموں کے اوردوسرے قوانین کے مسودات تیار کیئے جائِین۔ پھر ایک دن آرمی چیف ہنگامی حالت نافذ کر کے آئینی ترمیموں اور دوسرے قوانین کو نافذ کر دیں۔ تھوڑی دیر بعد ہنگامی حالت ختم کر دی جائے۔ اس کے بعد سپریم کورٹ کاروائی کی توثیق کر دے۔ جونہی مرکزی قانون کے تحت مقامی حکومتوں کے انتخابات ہوں اور منتخب عہدیدار حلف اٹھا لیں تو صوبے ختم ہو جائیں گے۔ نئی پارلیمنٹ قوانین اور آئین میں ترامیم منظور کرے۔ جب یونین ناظم بلحاظ عہدہ قومی اسمبلی کے ارکان بن جائیں گے  تو نیا سیاسی نظام وجود میں آ جائے گا۔ اس کے تحت ہر ضلع کی بھرپور ترقی ہوگی اور صوبائیت کے پیدا کیئے ہوئے مسائل اور علاقائی کشیدگیاں ختم ہو جائیں گی۔
 11 ستمبر 2013

ایک لاکھ کروڑ کتنے ہوتے ہیں؟

ہندو کہتے ہیں کہ پرانے وقتوں میں انھوں نے ریاضی میں بڑی ترقی کی۔ کی ہوگی لیکن اب یہ حالت ہے کہ گنتی بھی بھول چکے ہیں۔ کروڑ تک تو گن لیتے ہیں لیکن اس کے بعد کروڑوں ہی میں گنتے جاتے ہیں، مثلا، سو کروڑ، ہزار کروڑ بلکہ لاکھ کروڑ۔ یہ ہمارے ان پڑھ دیہاتیوں والا طریقہ ہے۔ فرق یہ ہے کہ دیہاتی بیسیوں میں گنتے ہیں، جیسے چھ بیسیاں، یا دس بیسیاں۔ جب کسی ظالم کا ذکر کرنا ہو تو کہتے ہیں، زورآور کا ایک سو سات بیسیوں کا ہوتا ہے۔
ہندوستان میں پتہ نہیں کیوں کروڑ پر رک جاتے ہیں، جبکہ ان کی گنتی نیلم، پدم، سنکھ تک جاتی ہے۔ لگتا ہے کہ ارب لکھنا انھیں پسند نہیں، کیونکہ ہندی میں "ارب" اور "عرب"  کے ایک ہی ہجے ہیں (अरब)۔ چنانچہ وہ عرب نہیں کہنا چاہتے کیونکہ وہ "ملیچھ مسلمان" ہیں۔
چلیں ہندی میں تو "عرب" سے اشتباہ ہو سکتا ہے لیکن انگریزی میں "ارب" کو چھوٹے اے سے اور "عرب" کو بڑے آے سے لکھ کر فرق کیا جا سکتا ہے۔ پھر انگریزی میں بھی کروڑ سے اوپر کیوں نہیں جاتے۔ مثلا، حکومت کے بجٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہیں گے کہ اتنے لاکھ کروڑ کا خسارہ ہے۔ آپ فورا نہیں بتا سکتے کہ ایک لاکھ کروڑ کتنے بنتے ہیں۔ پہلے ایک کروڑ لکھیں۔ پھر اس کے آگے لاکھ کے پانچ صفر لگائیں۔ جو رقم بنے وہ بھی نہیں بتا سکتے کیوں کہ اس کے لیئے گنتی لکھںے کے انگریزی طریقہ کا سہارا لینا ہوگا۔ ہر تین صفر کے بعد کامہ لگائیں۔ تب معلوم ہوگا کہ ایک ٹریلین بنتا ہے۔ اگر کوئی خبریں سن رہا ہو، خاص طور پر غیرملکی، تو وہ کیسے سمجھ سکتا ہے کہ کسی منصوبہ پر کتنا خرچ ہوگا؟
ہندو طعنہ دیا کرتے تھے کہ مسلمانوں کو حساب نہیں آتا۔ اصل میں ہمیں وہ حساب نہیں آتا تھا، جو بنیا اپنے بہی کھاتوں میں لکھا کرتا تھا۔ وہ رقم اس طرح لکھتا کہ کوئی عام آدمی پڑھ ھانہ سکے۔ چنانچہ وہ پڑھے لکھے دیہاتیوں کو بھی جو چاہتا مول اور بیاج، یعنی اصل زر اور سود، کی رقم زبانی بتا دیتا، چاہے کھاتہ میں کچھ اور لکھا ہو۔
ہم طعنہ کا جواب دیا کرتے تھے کہ کیا ہوا ہم بہی کھاتوں کی رقمیں نہیں پڑھ سکتے۔ ہمارے بڑوں نے علم ریاضی میں بہت ترقی کی۔ انھوں نے صفر ایجاد کیا۔ الجبرا تو ریاضی کی ایسی شاخ ہے کہ اس کا عربی نام تک اپنا لیا گیا۔ یہی نہیں، یورپ کو گنتی مسلمانوں نے سکھائی، جس نے جلد ہی رومی گنتی کی جگہ لے لی۔
رومی گنتی لکھنا اور پڑھنا بڑا مشکل تھا۔ مثلا، 2012 کو MMXII لکھیں گے۔ اس سے اندازہ لگا لیں کہ کیسے لمبی رقمیں لکھتے اور پھر جمع تفریق کرتے ہوں گے۔ چنانچہ عام استعمال میں تو رومی گنتی کبھی کی ختم ہو چکی ہے۔ صرف خاص موقعوں پر استعمال ہوتی ہے، مثلا، کتاب کے ابواب کے نمبروں کے لیئے۔ اس کی جگہ 1، 2، 3 استعمال ہوتے ہیں، جنھیں "عربی ہندسے" کہا جاتا ہے۔
ایک شعبہ میں رومی گنتی اب بھی استعمال ہوتی ہے۔ ہر فلم کچھ سالوں بعد پرانی ہو جاتی ہے۔ بنانے والے نہیں چاہتے کہ اس کا آسانی سے پتہ چلے۔ چنانچہ برتانیہ میں فلم کا سال رومی گنتی میں لکھتے ہیں۔ مثلا، 2013 کو MMXIII لکھیں گے۔ بی۔بی۔سی۔ والے بھی یہی کرتے ہیں۔ امریکیوں کو اس کی سمجھ ہی نہیں۔ چنانچہ وہ اس بکھیڑے میں نہیں پڑتے اور سیدھے سیدھے 2013 لکھ دیتے ہیں۔ لیکن اتنی باریک ٹائیپ میں اور ایسی جگہ کہ آسانی سے نظر نہ پڑے۔ جنوبی ایشیا میں فلموں اور ڈراموں والے کسی بھی طرح سال لکھنے کا تکلف نہیں کرتے۔
ہمیں رقم یا تعداد لکھنے میں ایک مشکل پیش آتی ہے۔ ہم نے رقم لکھنے کا طریقہ تو سنسکرت (یا ہندی) والا اختیار کیا، یعنی بائیں سے دائیں۔ انھیں تو سمت تبدیل نہیں کرنی پڑتی۔ ہمارا خط عربی ہے، جو دائیں سے بائیں لکھآ جاتا ہے۔ عرب تو اکائی کی طرف سے پڑھتے ہیں۔ مثلا، 463 کو ثلاثہ و ستین و اربعہ ماۃ بولتے ہیں۔ ہم عبارت پڑھتے عربی کی طرح ہیں (دائیں سے بائیں) لیکن رقم یا تعداد انگریزی کی طرح بائیں سے دائیں پڑھتے ہیں۔
تعداد لکھنے میں ہمیں ایک اور مشکل پیش آتی ہے۔ بہت سے لوگ ساری رقم لگاتار ہندسوں میں لکھ دیتے ہیں۔ مثلا، 78905434 روپے لکھ دیں گے۔ پڑھنے والا دائیں طرف سے شروع کرتا ہے۔ آخر میں جا کر پتہ چلتا ہے کہ اتنے کروڑ، لاکھ، وغیرہ بنتے ہیں۔ اگر دائیں طرف سے ہر تین ہندسوں کے بعد کامہ ڈالتے جائیں تو ایک نظر میں رقم پڑھی جا سکتی ہے۔
ہمارے ہاں مرکزی حکومت کے بجٹ میں اور دوسری دستاویزوں میں رقوم ملین اور بلین میں لکھی جاتی ہیں۔ اس کے برعکس صوبائی بجٹوں میں لاکھ اور کروڑ ہی چلتے ہیں۔ (شائد ان میں تبدیلی کی صلاحیت کم ہے۔) میڈیہ میں اور برا حال ہے۔ وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ چونکہ انھیں ملین اور بلین کی سمجھ نہیں تو عوام کو بھی نہیں ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام بڑی آسانی سے تبدیلی اپنا لیتے ہیں۔ آپ نے کبھی کسی عام آدمی کو کلومیٹر کی بجائے میل یا کلو کی جگہ سیر کہتے سنا ہے؟
گنتی کے مسئلہ کا حل یہ ہے کہ حکومت نے 45 سال پہلے جو نظام نافذ کیا تھا اس پر پوری طرح عمل کیا جائے۔ اخباروں اور ٹیلی ویژن چینلوں پر سب ایڈیٹروں اور رپورٹروں کو ہدائت کی جائے کہ تمام رقوم وغیرہ صرف ملین اور بلین میں لکھی اور بولی جائیں۔ تحریر میں کچھ عرصہ کے لیئے ساتھ ہی بریکٹ میں وضاحت کر دی جائے کہ ملین=دس لاکھ اور بلین=ایک ارب۔ جب تبدیلی عام طور پر قبول کر لی جائے تو وضاحت ختم کر دی جائے۔ (درجہ حرارت فارن ہائیٹ کی بجائے سینٹی گریڈ یا سیلسیئس اپنانے کے لیئے یہی کیا گیا تھآ۔)
ملین اور بلین کے ساتھ یہ بھی دھیان رکھا جائے کہ رقم ہو یا تعداد، ہر تین ہندسوں کے بعد کامہ ڈالا جائے۔ اس طرح اسے ایک نظر میں پڑھنا آسان ہو جائے گا، جیسے 50,706,543 (یعنی 50 ملین)۔ اگر جمع کا صیغہ استعمال کرنا ہو تو"ہزار ہا" کے وزن پر "ملین ہا" اور "بلین ہا" کہا جا سکتا ہے۔

سینٹ کیوں نہ ختم ہی کر دی جائے؟

نقل میں بھی عقل درکار ہوتی ہے۔ دوسروں کی نقل میں سینیٹ تو بنا لی گئی لیکن یہ نہ سوچا گیا کہ ایوان بالا کی ضرورت وہاں ہوتی ہے جہاں بہت سے صوبے ہوں تاکہ بڑے صوبے چھوٹوں پر حاوی نہ ہو سکیں۔ ہمارے تو صوبے ہی کل چار ہیں۔ اس لیئے ان میں توازن پیدا کرنے کے لیئے سینیٹ کی ضرورت نہیں۔ پھر اس کے اختیارات اتنے کم ہیں کہ اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔
امریکہ میں 50 ریاستیں ہیں۔ ان میں سے کچھ آبادی کے لحاظ سے بہت بڑی اور کچھ بہت چھوٹی ہیں۔ قانون سازی میں سب کو یکساں اہمیت دینے کے لیئے تمام ریاستوں کے دو دو نمائندے سینیٹ میں رکھے گئے۔ سینیٹ کے اختیارات بھی زیادہ ہیں۔ سینیٹر بھی ایوان زیریں کے ارکان کی طرح براہ راست منتخب ہوتے ہیں۔ رہی وزارت، تو وہ کسی منتخب نمائندہ کو نہیں ملتی، چاہے ایوان بالا کا ہو یا ایوان زیریں کا۔ تمام وزیر باہر سے لیئے جاتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو نے سینیٹ حب علی کے نہیں، بغض معاویہ کی تحت آئین میں رکھوائی۔ اگرچہ وہ پنجاب کے ووٹوں سے ہی وزیر اعظم بنے تھے لیکن وہ اس کی اہمیت کم کرنا چاہتے تھے۔ انھیں اس میں زیادہ دلچسپی نہ تھی کہ چھوٹے صوبوں کو زیادہ اہمیت ملے۔ اگر وہ زیادہ عرصہ رہتے تو ممکن تھا کہ سینیٹ کے اختیارات اتنے بڑھا دیتے کہ اس کی قومی اسمبلی پر برتری ہو جاتی اور تین چھوٹے صوبے پنجاب پر ہمیشہ غالب رہتے۔ ان کے بعد سینیٹ جیسے تھی کم و بیش ویسے ہی چل رہی ہے۔ اس وقت اس کی حیثیت ایک مباحثہ کلب سے زیادہ نہیں، جہاں تقریریں تو ہوتی رہتی ہیں لیکن ان کا نتیجہ کچھ نہیں نکلتا۔
سینیٹ کے ارکان کا انتخاب صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کرتے ہیں۔ اگر لیڈر امیدوار نامزد کر دے تو پارٹی کے ارکان اسے منتخب کرنے کے پابند ہو جاتے ہیں۔ جہاں امیدواروں میں مقابلہ ہو جائے وہاں ایک ایک رکن اسمبلی کا ووٹ کروڑوں روپے میں خریدا جاتا ہے۔
اگر ارکان سینیٹ کے براہ راست انتخااب کی بات کی جائے تو حکمرانوں کو سانپ سونگھ جاتا ہے کیونکہ اس طرح وہ چہیتوں کو رکن نہیں بنوا سکیں گے۔ اگر ارکان کا انتخاب براہ راست ہو تو ان کے حلقے قومی اسمبلی کے حلقوں سے بھی بڑے ہوں گے۔ پھر کون کہیں زیادہ اخراجات کا بوجھ اٹھانے کو تیار ہوگا، جب کہ سینیٹر بن کر قومی اسمبلی کے رکن کی نسبت کہیں کم فائدے ملتے ہیں؟
اب تک سینیٹ کا ایک فائدہ یہ سامنے آیا ہے کہ یہ آئین میں ترمیم روک سکتی ہے۔ اب تک یہ ہوتا رہا ہے کہ الیکشن کے نتیجہ میں بر سر اقتدار آنے والی پارٹی اگلے الیکش مین ہار جاتی ہے۔ (کسی نے لگاتار دو دفعہ حکومت نہیں بنائی۔) تاہم سینیٹ میں اس کی سیٹیں برقرار رہتی ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے سینیٹ کے ارکان چھ سال کے لیئے ہوتے ہیں اور ہر تین سال کے بعد آدھے ارکان کا انتخاب ہوتا ہے۔ چنانچہ قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی کو سینیٹ میں اکثریت کے لیئے اس کے اگلے الیکشن تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ اس وقت تک وہ آئین میں ترمیم نہیں کر سکتی۔
سوال یہ ہے کہ آئین میں ترمیم کی اتنی جلدی کیوں ہوتی ہے؟ صرف ہمارے ہاں ہی ترمیم کے لیئے نہ بحث کی ضرورت سمجھی جاتی ہے اور نہ میڈیہ اور دانشروں سے مشورہ کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ قومی اسمبلی کے ارکان کی رائے بھی ضروری نہیں ہوتی۔ مثلا، 18ویں ترمیم کے تحت آئین میں سو سے زیادہ تبدیلیاں کی گئین لیکن اس قدر خفیہ طور پر کہ اسمبلی تو کجا، اس کمیٹی کے سب ارکان کو بھی خبر نہ ہوئی جنھون نے منظوری دی!
آئین میں ترامیم کے لیئے سینیٹ کی منظوری ضروری بھی نہیں۔ قومی اسمبلی کے ارکان عوام کے نمائندے سمجھے جاتے ہیں۔ اگر ان کی دوتہائی اکثریت منظور کر لیتی ہے تو کافی ہونی چاہیئے۔ اگر مزید نمائندگی درکار ہو تو کہیں بہتر ہے کہ صوبائی اسمبلیوں کی رائے لے لی جائے۔ اگر تین صوبوں میں سے ہر ایک کی اسمبلی اپنے کل ارکان کی دوتہائی اکثریت سے اتفاق کرے تو ترمیم منظور ہو جائے۔ لیک پھر یہ ہوگا کہ کسی صوبہ میں مخالف پارٹی برسراقتدار ہو تو رکاوٹ پڑ سکتی ہے۔ یوں ترمیم کرنا جوئے شیر لانا ہوگا۔ یہ ایک لحاظ سے بہتر ہی ہوگا کیونکہ اب تک آسانی سے کی جانے والی ترمیموں نے آئین کا حلیہ بگاڑ دیا۔
سینیٹ کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ جو لوگ الیکشن لڑ کر کامیاب نہیں ہو سکتے انھیں اندر لایا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد جسے وزیر بنانا ہو اسے کابینہ میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ اس چور دروازہ کی بجائے کچھ وزیر قومی اسمبلی سے باہر سے لینے کی اجازت ہونی چاہیئے۔ در اصل، وزیر ہونے ہی باہر سے چاہیئیں۔ آج زمانہ تخصص کا ہے۔ ہر شعبہ کی ضروریات سمجھنے کے لیئے اس کے ماہرین درکار ہوتے ہیں۔ یہ لوگ الیکشن نہیں لڑ سکتے۔ جو لڑ کر کامیاب ہوتے ہیں انھیں پتہ نہیں ہوتا کہ کرنا کیا ہے۔ ایک وزیر کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ پہلے دن انھیں فائلوں کو نپٹانے کا طریقہ بتایا گیا کہ کس طرح کسی تجویز کو منظور کرنا ہے اور کس طرح نامنظور۔ اگر کسی فیصلہ کی ضرورت نہ ہو تو صرف "seen" لکھ کر نیچے دستخط کر دیں۔ ایک ایسی فائل آئی تو وزیر موصوف نے اس پر حرف "س" لکھ کر دستخط کر دیئے! جب ارکان اسمبلی کے لیئے تعلیم یافتہ ہونا ہی ضروری نہیں تو ان سے کسی معاملہ پر غور اور نئی سوچ کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟
مسئلہ کا حل یہ ہے کہ آئین میں ترمیم کر کے سینیٹ کو ختم کر دیا جائے۔ رہا مسئلہ پنجاب کی اکثریت کا تو اس نے کبھی اس کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا۔ ہمیشہ دوسروں کے لیئے قربانی دیتا رہا ہے۔ دریائوں کے پانی میں اپنا حصہ کم کیا، مالیاتی اوارڈ میں کمی قبول کی، یہاں تک کہ دوسرے صوبوں کے سبھی امیدوار پنجاب کے ووٹوں ہی سے وزیر اعظم بنتے رہے۔ اس لیئے پنجاب کی اکثریت سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر ڈر ہے تو پھر اس کے پانچ صوبے بنا دیں۔ لیکن پھر ڈر ہوگا کہ دوسرے صوبوں کی تقسیم کا بھی مطالبہ ماننا پڑے گا۔ یہاں آ کر پائوں رک جائیں گے اور آگے قدم نہیں اٹھے گا۔